واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت قاسم بن محمدبن ابی بکر

رضی اللہ عنہ

 

          تاریخ ولادت ۲۳ شعبان ۲۴ ہجری جائے ولادت مدینہ منورہ۔ آپ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی اور سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا تھے۔ زہد و عبادت، تقویٰ و طہارت میں اپنی مثل آپ تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

         حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا  کہ مدینہ طیبہ میں حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر فضیلت والا ہمیں کوئی نظر نہ آیا۔ اس کے باوجود کہ آپ مدینہ عالیہ کے مشہور سات فقہاء میں سے تھے، پھر بھی فرماتے تھے ” ضروری نہیں کہ جو کچھ ہم سے پوچھا جائے وہ ہم جانتے ہی ہوں۔ نیز فرمایا ”و من العلم لا قولک ”لا ادری“ “، یعنی یہ کہنا کہ میں نہیں جانتا بھی ایک طرح کا علم ہی ہے۔

                    حضرت امام قاسم چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور اپنی  پھو پھی ام المومنین حضرت عا یشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پرورش پاتے رہے ۔آپ کا با طنی انتساب  حضرت سلمان فارسی سے ہے۔

                حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ علیہ فرماتے ہیں  کہ اگر امرخلافت میرے اختیار میں ہوتاتو میں حضرت قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کے سپرد کرتا۔

            حضرت امام بخاری  رحمتہ  اللہ  علیہ   کا قول ہے کہ آپ اپنے زمانے میں سب سے افضل تھے۔ایوب سختیانی   رحمتہ  اللہ  علیہ   کا بیان ہے کہ میں نے کسی کو بھی حضرت قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   سے افضل نہیں دیکھا۔

                  ابن اسحاق    رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   کو نماز پڑھتے دیکھا۔ ایک عرابی آیا۔اُس نے پوچھا  کہ آپ اور سالم بن عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالٰی عنہ   میں  کون زیادہ عالم ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا وہ مرد مبارک ہیں سبحان اللہ!عرابی نے پھر وہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا سالم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   وہ ہیں اُن سے پوچھ لے۔ابن اسحاق   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ حضرت قاسم  رضی اللہ تعالٰی عنہ   نے اپنے آپ کو زیادہ علم والا کہنا پسند نہ کیا کیونکہ یہ تزکیہ نفس ہے۔اور یہ بھی نہ کہا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالٰی عنہ    زیادہ علم والے ہیں کیونکہ کہیں یہ جھوٹ نہ ہو۔

         آپ سے بہت سی احادیث رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مروی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ”اعظم النساء برکۃ ایسرہم مؤنۃ“ کہ عورتوں میں بہتر عورت وہ ہے جس کے اخراجات آسان ہوں۔

      جب  آپ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی "مجھے اُن کپڑوں میں دفن کرنا جن کپڑوں میں   میں نماز پڑھا کرتا تھا"۔یعنی قمیض،  تہبند اور چادر۔آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا۔ ابا جان !کیا ہم دو کپڑے اور زیادہ کر دیں؟  آپ نے ارشاد فرمایا۔ جان پدر حضرت ابو بکرصدیق  رضی اللہ تعالٰی عنہ    کا کفن بھی تین کپڑوں پر مشتمل تھا۔مردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑوں کی ضرورت زیادہ ہوتی  ہے۔

       آپ ۲۴ جمادی الثانی ۱۰۱ یا ۱۰۶ یا ۱۰۷ کو سفر حج یا عمرے کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کےدرمیان قدید کے مقام  پر اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔قدید سے تین میل کی دوری پر مثلل کے مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔